انٹرنیٹ کا مستقل استعمال، صحت کے لیے خطرناک




جس طرح منشیات کا عادی کوئی شخص نشہ چھوڑدے تو ابتداء میں اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ذہنی و جسمانی طور پر وہ خود کو کمزور محسوس کرنے لگتا ہے؛ اسی طرح نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد میں اُس وقت دل کی دھڑکنیں تیز ہونے اور بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جب انٹرنیٹ بند ہوجائے۔

برطانیہ کی سوانسی یونیورسٹی کے پروفیسر فل ریڈ کی جانب سے کی گئی تحقیق میں 18 سے 33 برس کے 144 افراد کو شامل کیا گیا اور نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ جب انٹرنیٹ بند ہوا تو ان میں سے زیادہ تر افراد کی دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں اور بلڈ پریشر میں بھی اضافہ ہوا جبکہ ان میں مایوسی بھی بڑھی۔

نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ جب تک انٹرنیٹ کام کرتا رہا، تحقیق میں شریک افراد کے دل کی دھڑکنیں معمول کے مطابق چلتی رہیں۔ تاہم جیسے ہی انہیں آف لائن کیا گیا ان میں سے بعض کی دھڑکنوں اور بلڈ پریشر میں پہلے کی نسبت 4 فیصد تک اضافہ ہوگیا؛ جب کہ بعض کا بلڈ پریشر اس سے بھی زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ تحقیق میں شامل افراد کے نفسیاتی ہیجان میں اضافہ بھی دیکھا گیا۔

بنگلا دیش کی معروف اداکارہ نے فلم انڈسٹری چھوڑکرتبلیغ شروع کردی





بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق 22 سالہ ادکارہ نازنین اختر ہیپی نے اپنے نام کے ساتھ اپنا حلیہ بھی بالکل تبدیل کرلیا ہے اور اب وہ نہ صرف پورا برقعہ بلکہ ہاتھوں اور پیروں کو چھپانے کے لیے دستانے اور موزے بھی پہنتی ہیں۔ انہوں نے اپنا نیا نام امتااللہ رکھا ہے اور اپنے ماضی سے رشتہ یکسر منقطع کرکے مدرسے میں قرآن پڑھنے کے ساتھ ساتھ تبلیغ شروع کردی ہے۔

رواں ماہ ان کی زندگی پر نئی کتاب شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ان کے اندر یہ تبدیلی کیسے آئی۔ بنگلا دیشی عوام نے امتااللہ کی کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اشاعت کے بعد کچھ ہی دیر میں ان کی کتاب کے ہزاروں کاپیاں فروخت ہوگئیں جس کے بعد ناشرین ایک ماہ میں دوسری بار کتاب شائع کررہے ہیں۔ کتاب کا نام ’’ہیپی سے امتااللہ تک‘‘ ہے، جس کے مصنف عبداللہ فاروق اور ان کی اہلیہ صادقہ سلطانہ ہیں، یہ کتاب امتاللہ کے براہ راست انٹرویو پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے اپنی کایا پلٹ کی وجوہات بیان کیں۔

ناشرین نے کتاب کی مقبولیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر شخص یہ جاننا چاہتا ہے کہ اداکارہ نے شان و شوکت اور شہرت کی زندگی چھوڑ کر کیوں ایک مذہبی زندگی اپنائی۔

نازنین اختر ہیپی 2013 میں بنگلا دیش کی ایک فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے کے بعد شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئی تھیں۔ نازنین اختر 2014 میں اس وقت ملکی و غیر ملکی میڈیا کی خبروں کی زینت بنیں جب انہوں نے بنگلا دیش کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی روبیل حسین پر جنسی زیادتی اور شادی کے وعدہ سے پھرنے کا الزام عائد کیا تاہم عدالت میں کیس چلا جس کے دوران ہیپی نے الزامات واپس لے لیے اور جج نے کھلاڑی کو بے گناہ قرار دے دیا۔

کتاب کے مصنف عبداللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ روبیل کے ساتھ تنازع اور عدالتی جنگ ہارنے کے بعد ہیپی نے نئی فلم میں کام شروع کیا جس کی شوٹنگ کے دوران ایک رات انہوں نے اپنی زندگی تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور تبلیغی جماعت میں شامل ہوگئیں۔ انہوں نے فیس بک سے اپنی ہزاروں تصاویر ڈیلیٹ کرکے فلمی دنیا کو خیر باد کہا اور مکمل پردہ کرنا شروع کر دیا۔

امتااللہ کا کہنا ہے کہ ان کا نیا جنم ہوا ہے۔ شوبز میں واپسی سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ دوبارہ جہنم کی آگ میں قدم نہیں رکھنا چاہتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب کوئی ان کے ناخن تک نہیں دیکھ سکتا اور وہ رشتہ ازدواج میں بھی منسلک ہوچکی ہیں۔

بالوں کو رنگنے اور انہیں سیدھا رکھنے والی مصنوعات سے بریسٹ کینسر کا خطرہ




ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کئی اقسام کی ہیئر ڈائی اور گھنگھریالے بالوں کو سیدھا کرنے والے کیمیکلز خواتین میںبریسٹ کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں لیکن اس کا اثر سفید فام اور سیاہ فام خواتین پر مختلف ہوسکتا ہے۔ 

نیوجرسی میں رٹگرز یونیورسٹی کے ماہرین نے جرنل کارسینو جنیسس میں ایک تحقیق شائع کی ہے جس کے مطابق ماہرین نے خواتین میں بریسٹ کینسر کے حوالے سے ایک سروے کیا اور اس میں 20 سے 75 سال کی 4285 خواتین نے حصہ لیا اور ان میں سے 2280 خواتین کو بریسٹ کینسر تھا جن میں 1508 سیاہ فام اور 772 سیاہ فام تھیں۔ رپورٹ کے مطابق 58 فیصد سفید فام اور 30 فیصد سیاہ فام خواتین نے بالوں کا رنگ استعمال کیا جب کہ 5 فیصد سفید فام اور 88 فیصد سیاہ فام خواتین نے ریلیکسر استعمال کیے جو بریسٹ کینسر کی وجہ بنے۔

ماہرین نے بغور جائزہ لینے کے بعد کہا کہ سیاہ فام خواتین بالوں کو رنگنے کے لیے گہرے شیڈز استعمال کرتی ہیں اور جن خواتین نے اسے استعمال کیا، رنگ استعمال نہ کرنے والی خواتین کے مقابلے میں وہ بریسٹ کینسر سے 50 فیصد زیادہ متاثر ہوئیں جب کہ سفید فام خواتین میں یہ رحجان 74 فیصد تھا تاہم بعض جانوروں پر بالوں کے کئی رنگوں، اسٹریٹنر، ریلیکسر اور ڈائی استعمال کرکے معلوم ہوا کہ اس کے کیمیکلز بریسٹ کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں۔

بریسٹ کینسر کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں جن میں جینیاتی کیفیات، بڑھاپا اور دیگر کیفیات شامل ہیں جب کہ خواتین ہارمون تھراپی سے انکار کرکے، الکحل سے احتراز اور ورزش کرکے بریسٹ کینسر کو خود سے دور رکھ سکتی ہیں۔

واضح رہے کہ 2012 میں پوری دنیا میں 17 لاکھ خواتین بریسٹ کینسر کی شکار ہوئی تھی اور امریکہ میں بریسٹ کینسر خواتین کا دوسرا بڑا سرطان ہے جب کہ پہلا نمبر جلد کے کینسر کا ہے تاہم ہیئر ڈائی سیاہ فام خواتین کو زیادہ متاثر کرسکتی ہیں۔

یورک ایسڈ میں اضافہ جوڑوں کے درد کا باعث بنتا ہے




جسم میں یورک ایسڈ بڑھ جائے تو جسم کے جوڑوں میں درد شروع ہوجاتا ہے۔ اسے گاﺅٹ کا مرض کہا جاتا ہے۔ یورک ایسڈ کیا ہے؟ جسم کے اندر پروٹین یا پیورین کے توڑ پھوڑ اور استعمال کئے جانے کے عمل کے بعد جو مرکب بچ جاتا ہے وہ یورک ایسڈ ہے۔ عموماً اسے ایک فالتو مادہ ہی تصور کیا جاتا ہے جس کا پیشاب کے راستے جسم سے خارج ہونا ضروری ہے اگر ایسا نہ ہو تو جسم میں مقدار بڑھتی جائے گی اور یورک ایسڈ سوڈیم یوریٹ کرسٹل کی شکل میں جوڑوں کے گرد جمع ہونے لگتا ہے۔ یورک ایسڈ جسم میں جمع ہونے کی دو وجوہات ہیں پہلی اگر اس کے بننے کی مقدار بڑھ جائے‘ دوسری اگر اس کے خارج ہونے کی مقدار کم ہوجائے۔ یورک ایسڈ بڑھ جانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ خوراک میں پروٹین پیورین کی زیادہ مقدار جو گوشت میں پائی جاتی ہے خوراک میں چینی فرکٹوز کی زیادہ مقدار جو کئی سوفٹ ڈرنکس‘ پھلوں کے جوس ،خاص کر سیب‘ آڑو ‘ ناشپاتی میں ہوتی ہے جس میں آئرن کی مقدار بڑھ جانے اور کاپر کی مقدار کم ہونے سے بھی یورک ایسڈ بڑھ جاتا ہے۔ مردوں میں 45 کی عمر کے بعد عموماً ہارمون ٹیسٹوز ٹیرون کی مقدار کم اور فیرائن آئرن بڑھ جاتی ہے جس سے یورک ایسڈ بڑھتا ہے اس لئے اگر یورک ایسڈ کی کوئی اور وجہ نہ مل رہی ہو تو خون میں ان دونوں کی مقدار چیک کروالیں اگر آئرن کی مقدار زیادہ ہو تو خون کا عطیہ دیں۔یورک ایسڈ زیادہ ہوجانے سے کیونکہ جوڑوں میں اکٹھا ہوتا ہے اس لئے سب سے پہلی علامت جوڑوں میں درد ہی ہے۔ 76 فیصد مریضوں میں پیر کا انگوٹھا سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے۔ 50 فیصد میں ٹخنہ‘ 32 فیصد میں گھٹنا‘ 25 فیصد میں ہاتھوں کے جوڑ اور 10 فیصد میں کلائی یا کہنی کا درد پہلی علامت ہے۔ جیسے جیسے یورک ایسڈ بڑھے گا ایک سے زائد جوڑ متاثر ہوں گے۔ عام طور پر ہلکا درد ہر وقت رہتا ہے لیکن کبھی کبھار اس کی نوعیت شدید ہوسکتی ہے۔ جوڑ میں سوزش ہوجاتی ہے‘ رنگت گلابی یا سرخی مائل ہوجاتی ہے‘ جوڑ پر ہاتھ لگانے سے گرم محسوس ہوتا ہے‘ حرکت کرنے یا ہاتھ لگنے پر شدید درد ہوتا ہے۔ ایسی حالت کچھ دن سے کچھ ہفتے تک رہ سکتی ہے۔یورک ایسڈ کے علاج کے لئے صرف درد کی ادویات نہیں بلکہ ایسی دوا بھی لینا پڑتی ہے جو اس کی مقدار کو کم کرے۔ البتہ درد کے دورے کے درمیان درد ختم کرنے والی ادویات ہی ضروری ہیں جیسا کہ NSAID انڈومیتھاسین‘ نیپراکسن‘ جن افراد کو معدے کی تکلیف ہو انہیں اس کے ساتھ اینٹی السر دوا بھی لینا چاہئے۔ درد اور سوزش اگر بہت شدید ہو تو چند دن کےلئے کال پی سین ادویات بھی لی جاسکتی ہیں اگر ان سے آرام نہ آئے تو ڈاکٹرز کی ہدایت کے مطابق سٹیرائیڈ پریڈ نیسولون کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ سوزش کو فوری کم کیا جائے۔ شدید دورہ ختم ہونے کے بعد ”زائلورک“ یا ”پروبیناسڈ تین سے چھ ماہ کےلئے لینا ضروری ہے۔a

ڈپریشن دور کرنے کا آسان طریق






لاہور (نیٹ نیوز) ایک نئی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ روزانہ کی ورزش نہ صرف ہمارے موڈ کو اچھا کرتی ہے بلکہ اس سے ڈپریشن کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔ نیویارک یونیورسٹی کے ماہرین نے تحقیق میں دماغ پر ورزش کے اثرات دیکھے اور کئی تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ورزش دماغی صحت کیلئے بہت مو ¿ثر ہے۔ ماہرین نے تحقیق میں دماغ کے کیمیائی مواد جیسے کہ ڈوپامین، سیروٹنین جو موڈ کے تبدیل ہونے میں کردار ادا کرتے ہیں،کو بھی نوٹ کیا۔ تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر ہم دن میں ایک مرتبہ ورزش کرتے ہیں تو ہمارا موڈ دن بھر اچھا رہتا ہے۔ ماہرین نے دیکھا کہ صرف ایک بار ورزش کرنے سے دماغ بہتر طریقے سے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ان کے مطابق تھوڑی دیر کی ورزش بھی موڈ کو بہتر کرتی ہے اور تھکاوٹ نہیں ہونے دیتی جبکہ روزانہ ورزش کرنے سے ڈپریشن 16.3 فیصد سے کم ہو کر 8.3 فیصد ہو جاتا ہے۔ ماضی کی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ورزش سے لوگ کافی اچھا محسوس کرتے ہیں اور ایسے لوگوں میں ڈپریشن کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ سائنس دانوں نے کہا کہ ہلکی پھلکی ورزش پارک میں چہل قدمی کے برابر ہے اور دونوں ہی موڈ کو بہتر کرتے ہیں۔ ہر قسم کی ورزش انسان پر مختلف طریقے سے اثر ڈالتی ہے جب لوگ کم اور ہلکی پھلکی ورزش کرتے ہیں تو ان کا دماغ بہتر کام کرنا شروع ہوجاتا ہے اور ڈپریشن میں کمی دیکھنے میں آتی ہے۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ ورزش کی وجہ سے ہمارا دماغ بھی بہتر کام کرتا ہے اور یادداشت اچھی ہو جاتی ہے جبکہ 
روزانہ کے مسائل حل کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔




Amazing Photo Graphy 15

پھلبہری کا مرض کیسے پیدا ہوتا ہے




پھلبہری، برض، سفید داغ، لیوکو ڈرما ونیٹلگو سب ایک ہی مرض کے نام ہیں جس میں جسم کے مختلف حصوں پر سفید نشان داغ یا دھبے پڑ جاتے ہیں۔ جلد کے اندر موجود ایک مادہ میلانن جلد کے رنگ ہلکا یا گہرا ہونے کا سبب بنتا ہے۔ زیادہ میلانن سے رنگ گہرا اور کم سے ہلکا ہوتا ہے۔ پھلبہری میں جلد کے چند حصوں پر میلانن بنتا ہی نہیں اس لیے اس جگہ رنگ باقی جلد سے فرق نظر آتا ہے یعنی سفید یا گلابی۔ سائنسدانوں کے مطابق اس کی حتمی یا یقینی وجہ کے بارے تو نہیں بتایا جا سکتا البتہ ریسرچ بتاتی ہے کہ ایک وجہ وراثتی اثر بھی ہے۔ یعنی یہ موروثی بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی حالت میں جلد کا مدافعاتی نظام ایسی پروٹین بناتا ہے جو جلد کے چند مقامات کے میلانن کو ختم کر دیتی ہے۔ ایسے افراد میں بیماری بچپن سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جن افراد میں تھائراٹڈ ہارمون بڑھ جائے یا ایڈرینل گلینڈ کارٹیکو سٹیرائڈ کم کر دے یا جسم میں وٹامن B-12 کی کمی ہو جائے ان میں بھی پھلبہری ہو سکتی ہے۔ آرتھرائٹس، ذیابیطس ٹائپ ٹو، مدافعاتی نظام کی خرابی سے بھی پھلبہری کا مرض ہو سکتا کبھی کبھار بعض ادویات کے لمبا عرصہ استعمال سے بھی جلد کا رنگ خراب ہو سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیس پچیس فیصد مریضوں کو پھلبہری ہونے کے بعد تھائرائڈ ہارمون کی خرابی اور بہرہ پن ہو جاتا ہے۔پھلبہری کے داغ عموماً جسم کے کھلے حصوں پر پڑتے ہیں۔ جیساکہ چہرہ، کان، ہاتھ، بازو، پیر وغیرہ جلد پر سفید دھبوں کے علاوہ پلکوں بھنوﺅں یا بالوں کا سفید ہونا بھی اس مرض کا حصہ ہو سکتا ہے۔ یہ نہ تو متعدی مرض ہے اور نہ ہی اس کے کسی فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ چہرے یا جلد پر بدنما دھبوں کی وجہ سے مریض کیلئے یہ پریشانی اور ٹینشن کا باعث ہے اس لیے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اگر مریض کو سٹیرائڈ کی کمی کے باعث پھلبہری ہو تو کچھ عرصے تک سٹیرائڈ دیا جاتا ہے۔ عموماً کارٹیکو سٹیرائڈ کریم یا ضرورت پڑنے پر گولی بھی دی جا سکتی ہے۔ دوسرا طریقہ علاج الٹرا وائلٹ تھراپی ہے جس میں الٹرا وائلٹ لائٹ کے ذریعے جلد کے بدنما حصوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اسے فوٹو تھراپی بھی کہا جاتا ہے اس سے تقریباً 60 فیصد مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ اس میں سورالینس کیمیکل کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسی ادویات لگانے کیلئے بھی دی جاتی ہیں جن سے جلد کی رنگت بدلتی ہے اور باقی جلد کے ساتھ ملتی جلتی ہو جاتی ہے لہٰذا چند افراد میں فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ البتہ لیزر سے پھلبہری کا علاج کیا جانا ممکن ہے۔ اگر ان طریقوں سے فائدہ نہ ہو توجلد کی سرجری کر کے نارمل رنگ کی جگہ بنائی جاتی ہے۔برص یا پھلبہری کے کئی دوسرے علاج بھی کیے جاتے ہیں جو کئی مریضوں میں کارگر ثابت ہوتے ہیں جیساکہ روزانہ سرسوں کے تیل اور ہلدی کو مکس کر کے داغوں پر سال بھر لگائیں۔ ایک اور طریقہ علاج میں سورالیا (بابچی، بواچی کے بیج) ہلدی کو ادرک کے پانی میں ملا کر رکھیں پھر صبح شام داغوں پر لگائیں۔

ہاتھ پاؤں کیوں سُن ہوتے ہیں؟




ہمارے ہاں نوجوان خواتین و حضرات کو جسمانی کمزوری، ہاتھ پاؤں کا سن ہونا اور خون کی کمی کا اکثر سامنا رہتا ہے، جس کی ایک بہت بڑی وجہ حفظانِ صحت کے حوالے سے معلومات کا نہ ہونا ہے۔ جب ایک نابالغ بلوغت میں قدم رکھتا ہے تو اسے رہنمائی کی بہت زیادہ ضرورت ہوا کرتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ایج گیپ کی وجہ سے بڑے اسے چھوٹا کہہ کر قریب نہیں آنے دیتے اور چھوٹے اس سے بڑا سمجھ کر کترانے لگتے ہیں۔

عمر کا یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب نوجوانوں کو جسمانی غذاؤں کے ساتھ ذہنی خوراک کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جسمانی اور جنسی تبدیلیوں کا یہ مرحلہ نوجوانوں کی ز ندگی کا ایک اہم موڑ ہوتا ہے اور یہاں انہیں بدنی، ذہنی، معاشری، اخلاقی اور سماجی لحاظ سے بہت زیادہ رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مناسب ماحول اور تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اکثر نوجوان اپنی بدنی اور ذہنی صلاحیتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

ایسے تمام نوجوان جنہیں بدنی اور ذہنی کمزوری کی وجہ سے ہاتھ پاؤں سن ہونے کا سامنا ہے وہ سب سے پہلے اپنی خوراک میں سے کولڈ ڈرنکس، بیکری مصنوعات،فاسٹ فوڈز اور تلی، بھنی اور تیز مصالحہ جات سے تیار غذائیں نکال دیں۔ نہار منہ سیر اور ورزش کو اپنے معمول کا لازمی حصہ بنائیں۔

کیلے اور کھجور کا ملک شیک،گھر کے بنے آلو چپس،ابلے ہوئے چاول، موسمی پھل، پھلوں کے رس اور ہر قسم کی سبزیاں بکثرت استعمال کریں۔ ذہنی تھکاوٹ اور بدنی اکساہٹ سے بچنے کے لیے شربت فولاد کے دو چمچ دن میں دو بار کھانے کے بعد پینا شروع کریں۔ اپنی سوچ و اپروچ تعمیری بنائیں اور تخریبی جذبات کو اپنے قریب بھی نہ آنے دیں۔ انشاء اللہ دو چار ہفتوں میں ہی طبیعت ہشاش بشاش اور توانا وطاقت ور ہو کر ہاتھ پاؤں سن ہونے اور عام جسمانی کمزوری سے نجات مل جائے گی۔

گائے کا دودھ نہ پینے والے بچوں کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے، طبی ماہرین






اس ضمن میں 5000 سے زائد بچوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ جن بچوں کو گائے کے دودھ کے بجائے دیگر اقسام کے دودھ دیئے گئے ان کی بڑھوتری پر فرق پڑا اور متبادل دودھ پینے سے ان کا قد چھوٹا نوٹ کیا گیا، یعنی اپنی عمر کے لحاظ سے بچوں کا قد قدرے کم دیکھا گیا، اس تحقیق کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ جن بچوں نے گائے کے دودھ کے علاوہ دیگر اقسام کے دودھ استعمال کئے ان میں پستہ قد کی شرح بھی اسی لحاظ سے تھی۔

کینیڈا میں سینٹ مائیکل ہاسپٹل کے ڈاکٹر جوناتھن میگوئرے اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن میں شائع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو سال بچوں کے لیے ماں کا دودھ ہی بہتر ہوتا ہے اور اس دوران گائے کے دودھ سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس میں موجود پروٹین اور لحمیات اتنے چھوٹے بچے کے لیے قابلِ ہضم نہیں ہوتے جبکہ اس کے بعد بچوں کو گائے کا دودھ ضرور پلانا چاہیئے ورنہ ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔

گائے کے دودھ میں دماغ اور ہڈیوں کے لیے ضروری اجزا مثلاً پروٹین، کیلشیئم اور دیگر ضروری چکنائیاں موجود ہوتی ہیں جو دوسال کے بعد بچوں کے لیے انتہائی ناگزیر ہوجاتی ہیں۔ ماہرین نے 24 سے 72 ماہ کے 5034 بچوں کا بغور مطالعہ کیا اور ان میں گائے کے دودھ اور گائے کے متبادل دودھ مثلاً سویا دودھ، بادام کا دودھ اور دیگر طرح طرح کے دودھ پینے کا جائزہ لیا گیا۔ اگرچہ یہ تحقیق امریکی اور کینیڈا کے ماحول میں ہوئی ہے لیکن پاکستان میں بھی بچوں کو گائے کے متبادل دودھ دینے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔

تجزییے میں معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے 92 فیصد بچے گائے کا دودھ باقاعدگی سے پی رہے تھے جبکہ 8 فیصد بچے روزانہ گائے کا متبادل دودھ پیتے تھے۔ جن بچوں نے گائے کا دودھ نہیں پیا وہ گائے کا دودھ پینے والوں کے مقابلے میں صفر اعشاریہ چار سینٹی میٹر چھوٹے تھے اور دودھ پینے والے بچے اوسط ان سے صفر اعشاریہ دو فیصد ذیادہ قد آور تھے۔ تین سال کے بچوں میں یہ فرق ڈیڑھ سینٹی میٹر تک پہنچ گیا۔ ڈاکٹر جوناتھن کے مطابق گائے کے دودھ کے ایک کپ میں 16 گرام پروٹین ہوتا ہے جو تین سالہ بچے کی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

( گلہڑ ) تھائرائیڈ اورہارمون سے آگاہی




گلے کے بالکل سامنے موجود تھائرائیڈ گلینڈ تھائراکسن ہارمون بناتا ہے۔ تھائراکسن جسے T4 بھی کہا جاتا ہے جسم میں کئی اہم کام کرتا ہے۔ تھائرائیڈ گلینڈ میں بننے کے بعد یہ خون میں شامل ہوجاتا ہے جہاں سے جگر میں پہنچ کر ایک متحرک شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ متحرک تھائراکسن ہارمون میٹابولزم‘ دل‘ دماغی نشوونما‘ ہاضمے‘ ہڈیوں اور پٹھوں کی صحت اور نشوونما میں کام آتا ہے۔ جسم کے تقریباً تمام کاموں اور نظام میں تھائراکسن کا کچھ نہ کچھ عمل دخل شامل ہے۔ خون میں تھائراکسن کی جانچ کے لئے T3‘ متحرک تھائراکسن کے لئے T4 اور دماغ سے تھائرائیڈ گلینڈ کے کنٹرول کو دیکھنے کے لئے TSH ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
تھائرائیڈ گلینڈ کے کم کام کرنے پر تھائراکسن کم بنتا ہے اور بائیو تھائرائیڈ کا مرض ہوجاتا ہے۔ عموماً ہائپو تھائرائیڈ کی وجہ جسم میں آیوڈین کی کمی‘ مدافعاتی نظام کی خرابی جس میں غدود متاثر ہوتے ہیں۔ ادویات کا اثر‘ خاندان سے وراثتی اثر شامل ہیں۔ اس کی علامات مختلف مریضوں میں مختلف ہوسکتی ہیں۔ تھائراکسن جتنا کم ہوگا علامات اتنی ہی زیادہ ہوں گی۔ بچوں میں اس کی علامات بہت زیادہ اور جلدی ظاہر ہوتی ہیں کیونکہ تھائراکسن کم ہونے سے بچوں کی نشوونما رُک جاتی ہے۔ اس کی علامات کچھ یوں ہوسکتی ہیں‘ تھکاوٹ‘ وزن میں زیادتی‘ کمزوری‘سخت کھردے بال‘ بال گرنا‘ سردی زیادہ لگنا‘ پٹھوں میں درد‘ پٹھے اکڑ جانا‘ قبض‘ ڈپریشن‘ یادداشت کی کمی‘ بے زاری‘ چڑچڑاپن وغیرہ۔ تھائراکسن ہارمون کی خون میں مسلسل کمی کے باعث دماغ سے زیادہ ہارمون بنانے کا آرڈر جاری ہوتا ہے۔ جس کے باعث تھائرائیڈ گلینڈ کو زیادہ یا بساط سے بڑھ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہارمون زیادہ بنے یا نہ بنے لیکن اکثر گلینڈ کا سائز بڑا ہوکر ”گائٹر“ یا ”گلہڑ“ بنا دیتا ہے۔ اس کے علاج کے لئے خون کے تینوں ٹیسٹ کروا کر فوری تھائراکسن ہارمون کی گولی شروع کرنا ضروری ہے۔
اگر تھائرائیڈ گلینڈ ضرورت سے زیادہ ہارمون بنانے لگے تو یہ کیفیت ہائپر تھائی رائیڈزم کہلائے گی۔ اس کی علامات یہ ہوسکتی ہیں۔ پٹھوں کی کمزوری‘ ہاتھوں میں کپکپاہٹ یا رعشہ کی طرح ہاتھ کانپنا‘ کبھی غصہ‘ کبھی خوف جیسی نفیسیاتی کیفیت‘ موڈ میں بار بار تبدیلی‘ اضطراب‘ بے قراری‘ بے چینی گھبراہٹ جیسی حالت‘ دل کی تیز دھڑکن‘ خشک کھردری جلد‘ نیند کی کمی‘ وزن میں کمی‘ دست یا پاخانے لگنا‘ آنکھوں کی سوزش یا آنکھ باہر کو نکلی ہوئی یا پہلے سے بہت بڑی پھیلی ہوئی نظر آنا وغیرہ۔ چونکہ گلینڈ پہلے ہی نارمل سے زیادہ کام کرتا ہے‘ اس لئے اس کیفیت میں بھی ”گلہڑ“ بن سکتا ہے۔ اس کی سب سے عام وجہ مدافعاتی نظام کی بیماری ”گریوز ڈیزیز“ ہے۔ ٹیسٹ کے لئے خون میں ہارمون لیول چیک کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات گلہڑ کے ساتھ بہت زیادہ تھائراکسن بنانے والے گلینڈ کے لئے ”ریڈیو ایکٹو آیوڈین“ کی گولیاں تجویز کی جاتی ہیں۔ بعض اوقات گلہڑ کے ساتھ بہت زیادہ تھائراکسن بنانے والے گلینڈ کے لئے ”ریڈیو ایکٹوآیوڈین“ بھی دی جاتی ہے (جو نیوگلہڑآیوڈین ہے)۔ گلینڈ کے سکن ٹیسٹ کے مطابق اس کی سرجری کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے‘ بصورت دیگر ادویات کے ذریعے علاج ممکن ہے۔

کس طرح عمل انہضام کام کرتا ہے




ہرسال 29 مئی کو ”ورلڈ ڈائی جیسٹو ڈے“ منایا جاتا ہے۔ یعنی نظام ہضم سے متعلق امراض سے آگاہی کا دن۔ کھانا چبانے سے لے کر ہضم ہونے تک تمام عمل نظام ہضم کے تحت کام کرتا ہے۔ کھانا چبانے کے ساتھ ہی یہ نظام کام کرنے لگتا ہے۔ منہ میں چبانے کے ساتھ چھوٹے غدود سے نکلنے والی رطوبت، تھوک کے اجزا اسے چبانے، نرم کرنے اور چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس کھانے کو منہ سے معدے تک لے جانے والی خوراک کی نالی ”ایسوفیگس“ ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ خوراک کی نالی میں بھی ”السر“ ایسوفیگس ہرنیا“ اور ”ویب یعنی جال“ بننے جیسے امراض ہوتے ہیں۔ جن کے باعث کھانا نگلنے میں دشواری ہوتی ہے۔ السر اور ”جی ای آر ڈی“ کے مرض کے باعث کھانے کے بعد بہت جلدی معدہ بھر جانے یا کھانا واپس اوپر کی طرف آنے یا متلی کی کیفیت ہوتی ہے۔ کھانا کے ٹکڑے معدے میں پہنچنے کے بعد اس کے تیزابی مادوں سے مزید ٹوٹتے ہیں اور ذرات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ چھوٹی آنت میں نظام ہضم کے دوسرے اعضا لبلبہ اور پتہ بھی اپنے مادے بھیجتے ہیں جو اس خوراک کو اتنے باریک ذرات میں تبدیل کرتے ہیں جو خون کی نالیوں میں شامل ہو سکیں۔ بڑی آنت میں موجود دوست بیکٹیریا اس کو ہضم کرتا۔ جسم کو درکار اجزا آنت میں جذب ہو جاتے ہیں اور بچ جانے والے آخری حصے ریکٹم سے خارج ہو جاتے ہیں۔
معدے کے السر میں مبتلا افراد کو تیزابیت کے ساتھ پیٹ میں درد، سینے میں جلن، قے متلی کی شکایت رہتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد اوپر کو آتا محسوس ہونا اور معدے کا تھوڑی سی خوراک کے بعد بھر جانا GERD کہلاتا ہے۔ جس میں کھانا واپس باہر آنا، متلی قے، گلے میں تیزابیت ہوتی ہے، ڈکار، معدہ بھرا ہوا، اپھارہ، ریاح، پیٹ میں گیس، کھانسی بھی ہو سکتی ہے۔ اکثر تیز نمک مرچ، مصالحے، کھٹائی، لیموں، سگریٹ، تلی ہوئی اشیا، پانی کا کم استعمال یا دوسری ترش اشیا کا استعمال اس کا باعث بنتا ہے۔
اس سال ورلڈ گیسٹرو سوسائٹی نے IBS کے مرض کو بطور خاص عوامی آگاہی کے لئے منتخب کیا ہے۔ آئی بی ایس کوئی جان لیوا بیماری نہیں لیکن بلاوجہ بار بار دست یا قبض مریض کے لئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ دیرینہ مرض ہے جو وقتی طور پر ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن اس کا کوئی مکمل علاج موجود نہیں جس سے یہ ہمیشہ کے لئے دور ہو جائے۔ ماہرین کے مطابق تقریباً 10 سے 20 فیصد افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ اکثر جوان افراد میں ہوتا ہے۔ اس مرض کی تین طرح کی علامات ہو سکتی ہیں۔ مریض کو پیٹ درد، بے چینی، اپھارہ، سخت پاخانہ یا قبض رہے۔ مریض کو پیٹ درد، بار بار دست کی حاجت، پتلے پاخانے، حاجت کے بعد بھی دوبارہ پاخانے کی حاجت محسوس ہو، مریض کو کبھی قبض کبھی دست لگ جائیں، ریشہ بھی آتا ہو۔ باتھ روم جانے کے لئے انتظار کرنا مشکل لگے۔ علامات چار پانچ دن رہنے کے بعد خود ہی دور ہو جاتی ہیں۔ کچھ دن بالکل ٹھیک گزرتے ہیں اور پھر دوبارہ علامات شروع ہو جاتی ہیں۔ کچھ مریضوں کو اس کے ساتھ جسم درد، کمر درد، منہ سے بو، سر بھاری، تھکان بھی رہتی ہے۔ جلد پریشانی ہونے والے وہمی، گھبرا جانے والے، تجسس کے شکار افراد میں یہ مرض عام ہے۔ ایسے مریض خوراک میں فائبر بڑھائیں ریشے والی غذا زیادہ لیں۔ جَو کا استعمال لازمی کریں۔ کولڈ ڈرنگ، چیونگم، کیفین کم کردیں۔ کھانے کے اوقات پر سختی سے عمل کریں۔

صحت مند جگر




انسانی جسم کا سب سے بڑا عضو جگر جو جسم کے سب سے اہم کام سرانجام دیتا ہے تقریباً دو کلو گرام وزن آٹھ سے دس سینٹی میٹر چوڑا اور سرخی مائل بھورے رنگ کا جگر جسم کا سب سے بڑا غدود یعنی گلنیڈ بھی ہے۔ جسم میں جانے والی خوراک معدے اور آنت سے ہضم ہونے کے بعد براہ راست خون میں شامل ہو کر جگر تک پہنچتی ہے۔ یہاں اس خوراک کی میٹا بولزم کا کام ہوتا ہے۔ یعنی خوراک کے مختلف حصں سے توانائی حاصل کی جاتی ہے جو خون کی نالیوں کے ذریعے جسم کے تمام خلیوں تک بھیجی جاتی ہے۔ یوں جگر کا اہم ترین کام میٹا بولزم ہے۔
اضافی توانائی یا اضافی خوراک سے وٹامن اور گلوکوز بھی جگر میں جمع ہو جاتے ہیں جو ضرورت پڑنے پر جسم استعمال میں لاتا ہے۔
جسم میں داخل ہونے اور خون میں شامل ہونے والے غیر ضروری مادوں، ادویات کے مضر اثرات، ادویات کی زائد مقدار، زہریلے عناصر، زائد ہارمون، زائد سٹیرائڈ کو جگر ہی صاف کرتا ہے۔
جسم میں استعمال ہونے والے کئی کیمیکل مادے جراثم اسینزائم، خون کے بہنے سے روکنے والے فیکٹر اور مادوں کی تیاری بھی جگر کے ذمے ہے۔
جسم کی ضرورت کے مطابق خوراک کے مختلف حصوں سے پروٹین کی تیاری بھی جگر کا کام ہے۔ اگر خوراک کے ذریعے پروٹین کم حاصل ہو تو جگر دوسرے اجزاءکو ضروری پروٹین میں تبدیل کرتا ہے۔
ایک اور اہم کام ”بائل“ کی تیاری ہے۔ بائل تیار ہونے کے بعد جگر کے ساتھ جڑے پتے (گال بلیڈر) میں جمع ہو جاتا ہے۔ معدے میں چکنائی والی غذا آنے پر پتے سے بائل آنت تک جاتا ہے تاکہ اسے ہضم کر سکے۔
جگر کے امراض زیادہ تر وائرس کے باعث ہوتے ہیں وائرس سے ہونے والی انفکشن ہیپاٹائٹس کا باعث ببنتی ہے۔ ان میں سے کچھ بگڑ کر جگر کے سرطان یا جگر کے سیروسز (جگر سکڑ جانے) کی وجہ بھی بنتے ہیں۔
جگر کو نقصان پہنچنے سے کئی مخصوص علامات پیدا ہوتی ہیں۔ جیساکہ یرقان، پیلا پیشاب، پیلے یا کالے پاخانے، پیٹ پر سوزش، پیٹ میں پانی یا بہت پھول جانا، بہت زیادہ تھکن اور کمزوری جسم پر سرخ نشان یا دھبے ہلکا بخار۔
جگر کے فنکشن یا جگر کے کاموں کو جانچ کرنے کیلئے خون کے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جنہیں لاہور فنکشن مثبت LFTS کیا جاتا ہے۔ ان سٹیٹوں کے ذریعے نہ صرف جگر کے کام کرنے کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ کسی حد تک جگر کے خلیوں میں ہونے والے نقصان کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔ جب LFTS کائٹ کروایا جاتا ہے تو اس میں کئی چیزیں چیک ہو جاتی ہیں۔ جگر کے مرض میں کم ہو جاتا ہے AST اور ALT سے جگر کے خلیوں کے نقصان کا اندازہ ہوتا ہے۔ ALP بڑھا ہو تو پتے اور بائل کی زیادتی ہو سکتی ہے۔ البتہ بچوں میں ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ہڈیوں کی نشوونما میں کام آتا ہے۔ بیلوروبن دو طرح کا ہوتا ہے۔ بیلو روبن بڑھا ہو تو خون کی کمی ہو سکتی ہے۔ ادویات یا جراثیم کا اثر بھی اسے بڑھا دیتا ہے۔ GGT براہ راست ظاہر کرتا ہے کہ جگر کے خلیوں کو کتنا نقصان ہو چکا ہے۔

آپ کو گہری نیند سلانے والا پھل کیوی




تائی پے (خصوصی رپورٹ)تائیوان کے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ گہری نیند کیلئے دو کیوی پھل کھانا مفید ہے ۔ ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کیوی میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس اور سیروٹونن دماغ کو سکون پہنچا کر موثر نیند کی وجہ بنتے ہیں۔اس کے لیے ماہرین نے 24 افراد کے سونے میں مشکلات کا جائزہ لینے کے لئے انہیں نیند سے ایک گھنٹہ قبل کیوی پھل کھانے کو دیا گیا تو پھل کھانے والے افراد 13 فیصد وقت زیادہ سوئے ۔ اس کے علاوہ ان میں بستر پر جانے کے بعد نیند کا دورانیہ بھی 35 فیصد تک کم ہوگیا۔ماہرین کے مطابق کیوی میں موجود وٹامن سی سانس کے نظام کو بہتر بناتا ہے جب کہ دمے کے مریض اگر کیوی کھائیں تو یہ ان کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے ۔

About My Mag

MAGNEWS: Dizziness is a feeling of being unbalanced Causes, symptoms.

Dizziness is a feeling of being unbalanced which affects the sensory organs, specifically the eyes and 

Facebook Like

header ads